لیلیٰ ترے صحراوں میں محشر ہیں ابھی تک
اور بخت میں ہر قیس کے پتھر ہیں ابھی تک
پھر ننگِ وطن جعفر و صادق ہوئے سردار
میسور و پلاسی کے وہ منظر ہیں ابھی تک
نیزوں پہ حسین آج بھی کرتے ہیں تلاوت
اور دست ِ یزیدی میں بھی خنجر ہیں ابھی تک
مفلس کے نگر رقص کرے بھوک کی دیوی
زردار بنیں شاہ و سکندر ہیں ابھی تک
اترے ہیں مرے دیس صلیبوں کے درندے
بند آنکھیں کئے بیٹھے کبوتر ہیں ابھی تک
آنکھیں ہیں تو دیکھ عالم ِ دورنگ کے ساقی
پیاسوں کیلئے زہر کے ساغر ہیں ابھی تک
گل رنگ ہوئی دار کہ یاران سحر خیز
درویش سے منصور و قلندر ہیں ابھی تک