ناسمجھ سوالوں کے جوابوں کو پورا کرنا تھا
مجھے زندگی کی کتابوں کو پورا کرنا تھا
ظالموں نے کیا کیا کہ چھین لی سانسیں میری
ابھی گلستانِ پاکِ گلابوں کو پورا کرنا تھا
ماؤں کے کتنے چشمِ چراغ بُجھ گئے ہیں
خواب دیکھنے تھے ابھی خوابوں کو پورا کرنا تھا
کم عمری میں حق چھِن گیا جینے کا
اور مجھے بہت سے ثوابوں کو پورا کرنا تھا
بنانا تھا مجھے ساگر وسیع تمناؤں کا
پل پل کے بہت حبابوں کو پورا کرنا تھا
افلاک میں کرنا تھا سفر مجھے اِک روز
سواری کیلئے کچھ عقابوں کو پورا کرنا تھا
خود ہی لکھ دیا میرا نام شہداء میں نہالؔ
مجھے اپنے لئے اور انتخابوں کو پورا کرنا تھا