تُو جا بسی ہے زمیں کے اندر
تیری خوشبو آتی ہے آسماں سے
نہ تُو دور ہے . . . . . نہ تُو پاس ہے
تجھے اے ماں! لاؤں کہاں سے
تجھے ڈھونڈا جُگنوؤں کے قافلے میں
پتہ پوچھا تیرا تاروں کے کارواں سے
تجھے جلدی بہت تھی لوٹ جانے کی
تُو پہلے چلی گئی خود اپنی ماں سے
تُو بچھڑ گئی میری دنیا ہی اجڑ گئی
کیوں روٹھ گئی تُو اپنی جان ِ جاں سے
درد جدائی سہنا پڑا پردیس میں رعنا
تقدیرمیں تھا لکھا گزرنا اس امتحاں سے