مار بھی ڈالو گے پھر بھی دھڑکے گا علیجاہ
بہت کمبخت ہے میرا دل علیجاہ
آزما کے دیکھو زندان بھی توڑے گا
بڑا پُختا ہے کمبخت میرا عشق علیجاہ
سیاہ راتوں میں طالب ہوں جس چاند کا میں
سچ میں کمبخت میرا نہیں وہ شخص علیجاہ
رُو بُرو موت کے تم پہ چھوڑا یہ تصمیم گیری
از قبل کمبخت بے جاں ہے میرا جسم علیجاہ
رکھ کہ میزان ذرا جانیے دام میرے زخموں کے
رُو پڑو گے تم دیکھ کر کمبخت میر ا صبر علیجاہ
ہو گئی سوار زندگی دو کشتیوں پہ درمیاں سمندر
دعا بس دعا کمبخت لے جا سکتی اُس پار علیجاہ
بات ہوگی انتہا کی لڑکھڑا جائیں گے دَر و دیوار سب
اس قدر اُتر ہے کمبخت مجھ میں میرا یار علیجاہ
نہیں سرکوب شد مجھ پہ لازم ہے میرے جُرم کی سزا
تصور تو کیجیے کمبخت ہے کتنا نفیس میرا عشق عیلجاہ