آج پھر بکھرا ہواؤں میں محبتوں کا سفر
گونج ہے پھر سے فضاؤں میں کہ برپا ہے حشر
پھر وہی لوگ جو اک آس میں تھے ڈوبے ہوئے
وہی ہنستے ہوئے سبھی چہرے تھے پھر خاک ہوئے
خون کے دریا میں روانی ہے کہ جلتا ہے بحر
بھڑکتی آگ بھی دیوانی ہے کہ چھوٹا ہے نگر
آسماں روتا ہے مارگلہ میں ہے ماتم برپا
خوف کی وادی میں ہوا آج پھر ماتم برپا
ماؤں کے سینوں میں بہنوں کی آہوں میں ماتم برپا
باپ کے کندھوں پے پڑے بوجھ پے ماتم برپا
ٹوٹی چوڑیوں کی صداؤں میں ہے ماتم برپا
سسکتی آہوں میں یتیموں کی ہے ماتم برپا
الوداع کرتے لبوں پے ہے ماتم برپا
بے سکونی کی فضاؤں میں ہے ماتم برپا
ننھے ہاتھوں کی دعاؤں میں ہے ماتم برپا
اجڑی گودوں کی پناہوں میں ہے ماتم برپا
میرے الله میرے ان لوگوں کی بخشش کرنا
معاف کرتے ہوئے ان سب کے درجے بلند کرنا
آمین ثم آمین