جب بھی کسی کو دربدر دیکھتے ہیں
کچھ وقت کو اپنا ہی منظر دیکھتے ہیں
اُن لمحوں میں ہمیں ماضی یاد آتا ہے
اُجڑتا ہوا جب بھی کوئی نیا گھر دیکھتے ہیں
درختوں کے سائے میں جہاں ساتھ بیٹھا کرتے تھے
اُنہی راہوں پر مجھے تنہا اب شجر دیکھتے ہیں
اپنے ہی ارادوں سے نادم ہو جاتے ہیں وہ لوگ
جو بچھڑنے کی بات تو لمحوں میں، مگر راہ عمر بھر دیکھتے ہیں
قبر پر بھی اک پھول تک نا گِرا اُن کے ہاتھ سے “فیروز“
مرنے کے بعد بھی ہمارا وہ صبر دیکھتے ہیں