وہ ایک سادہ بڑا مجذوب سا شخص
لوگوں سے گفتگو کا سلیقہ جانتا تھا
بہت ہنسنے ہنسانے والا وہ زندہ دل انسان
زخم دل میں لیئے ہنر مسکرانے کا جانتا تھا
اب محسوس ہوتا تھا بہت ٹوٹا ہوا ہو جیسے
پیار محبت کی باتوں سے وہ بہت اکتایا ہوا تھا
بہت قسمیں بہت وعدےاس نے ٹوٹتے دیکھے
بس اب خواہشوں کی لاشوں کو دفنانا باقی تھا
اسے مارا تھا انجان منزلوں کے راستوں نے
وہ بھکاری جو اس شہر میں بے حال پھرتا تھا
ہاتھ میں کاسا لیئے محبت کا اس شہر میں
اس بے وفا شہرمیں وہ وفا تلاش کرتا تھا
کسی نے نفرت کی تو وہی سچا لگا اس کو
کسی نے پیار سے بولا تو پھر آنکھ بھر آئی
کیوں ہوتا کوئی غم میں پریشاں اس کے ساتھ
اس کی قسمت میں ہی لکھی تھی جب رسوائی
سخن احباب میں سب پر بڑا ناز تھا اس کو
جہاں وہ ہر بات اپنی ہمیشہ کھل کر کرتا تھا
جب بولتا تھا تو دلیلوں اور حوالوں سے
سیاہ رات کو وہ پھر روشن سحر کرتا تھا
وہ اسی شہرکا اب اک تنہا مسافر ہے
جہاں فقط اب چند ضروری کام ہیں اس کو
جن کے ختم ہوتے ہی اسے لوٹ جانا ہے
منزل کیا ہے اب بھی نہیں معلوم ہے اس کو
ماں کی یاد یں اسے اکثر رلاتی تھیں
جسے اس شہر میں آکراس نے کھودیا تھا
وہ اکثر اپنےپرانے گھرکے قصے سنا کر
انھی قصوں میں اسے تاج محل بتاتا تھا
شائید اسے اپنے پرانے گھر میں جانا ہو
جسے وہ جوانی میں چھوڑ آیا تھا
جو اب ایک ویران کھنڈر بن چکا ہوگا
ایک زنگ آلود تالا اس میں لگا ہوگا
جہاں بچپن میں خواہشوں کو امانتن دفن کیا تھا
اب اس شہر کی تلخ یادوں کے جنازے کو
اپنے کاندھوں پر اٹھانا ہے وہیں پر دفن کرنا ہے
ماضی یاد آتا ہے اسے اب ماضی میں جانا ہے