مانا کہ زندگی میں میرے غم نہیں کوئی
یہ زندگی بھی غم سے مگر کم نہیں کوئی
چاہت کا اک ہجوم سا رہتا ہے آس پاس
اس بھیڑ کے سینے میں مگر دم نہیں کوئی
وہ جگنوؤں میں دیس میں ہے مثل ماہتاب
پر روشنی میں اسکے بھی ردھم نہیں کوئی
تحفے میں ملا رب سے سمندر کی طرح دل
لہروں کو دیا اسکے مگر خم نہیں کوئی
محفل بھی پر وقار ہے، ساقی بھی آشنا
جام و سبو میں لذت صنم نہیں کوئی
جینے کی آرزو ہے تو مرنے کا شوق بھی
آزار بھی یاروں میرے پیہم نہیں کوئی
گھبرا گیا تھا دل ذرا شب کے غبار سے
ورنہ سحر سے رنجش و الم نہیں کوئی