مانا کے تنہائی سنگی ساتھی ہے ہماری
مانا کے درد سے پرانی آشنائی ہے ہماری
پھر بھی دل میں امید کی کونپل ہے پھوٹی
شہرِ خموشاں میں گیت گنگناتی ہے اداسی
درد کے دریا میں ہلچل کس نے یوں ہے مچائی
سوئے زخم جگا دئیے مچل اٹھی ہے نارسائی
ہجر و فراق کے قصّے لکھتے لکھتے دیکھو تو
قلم ٹوٹے اور آنسوئوں نے مٹادی ہے روشنائی