مانگی ہویٔ سوغات نہیں چاہیۓ مجھ کو
حق دیجیۓ خیرات نہیں چاہیۓ مجھ کو
تار یکی میں امید کا جگنو ہی بہت ہے
تاروں سے بھری رات نہیں چاہیۓ مجھ کو
ہر چہرا جہاں لگتا ہو جذبات سے عاری
وہ شہرِ خرابات نہیں چاہیۓ مجھ کو
جو جسم کے ہمراہ مری روح جلا دے
وہ گرمئی جذبات نہیں چاہیۓ مجھ کو
بیزار ہوں اس بازیٔ الفت سے میں دلبر
ہر لمحہ نییٔ مات نہیں چاہیۓ مجھ کو
انجام ہو لکھا ہوا پیشانی پہ جس کی
اک ایسی شروعات نہیں چاہیۓ مجھ کو
توُ ساتھ مِرے رہ کے مِرےساتھ نہیں ہے
اب اور ترا ساتھ نہیں چاہیۓ مجھ کو