ماورائے جہاں سے آئے ہیں
آج ہم خُمستاں سے آئے ہیں
اس قدر بے رُخی سے بات نہ کر
دیکھ تو ہم کہاں سے آئے ہیں
ہم سے پوچھو چمن پہ کیا گزری
ہم گزر کر خزاں سے آئے ہیں
راستے کھو گئے ضیاؤں میں
یہ ستارے کہاں* سے آئے ہیں
اس قدر تو برا نہیں جالب
مل کر ہم اس جواں سے آئے ہیں