وجد میں کائنات آئی
فلک پر محفل انجم میں سرگوشی سنائی دی
قمر نے رشک سے دیکھا حیا خورشید کو آئی
زمیں نازای ھے اپنی سرفرازی پر
ھا کہساروں پہ ہیبت جیسے تاری
یہ کیا ہونے لگا ہے
یہ کیا یزداں کو ہے ترکیب سوجھی
نبی بھی با ادب سارے کھرے ھیں
خدا نے دیکھو اپیی مامتا کو
سمویا روپ انساں میں ہے کیسے
چلی دنیا میں جنت کی ہوائیں
اتھی جو اسکے دامن سے دعائین
محبت کا یہ بحر بیکراں ہے
عقیدت کا بلند تر آسماں ہے
سنو اے دنیا والو آج سن لو
یہی بے لوث ہستی ہی تو ماں ہے
یہی بے لوث ہستی ہی تو ماں ہے