ماں سا پیارا نہ کسی کا پیار ہے ( گیت)
Poet: Dr.Zahid Sheikh By: Dr.Zahid Sheikh, Lahore Pakistanماں سا پیارا نہ کسی کا پیار ہے
ماں نہ ہو تو ہر خوشی بیکار ہے
گود میں لے کر سلاتی تھی مجھے
روٹھ جاتا تو مناتی تھی مجھے
میری آنکھوں میں نمی کو دیکھ کر
جھولا بانہوں کا چھلاتی تھی مجھے
اب تو سونا سونا سب سنسار ہے
ماں نہ ہو تو ہر خوشی بیکار ہے
اس کا چہرہ آج بھی آنکھوں میں ہے
ماں کی خوشبو آج بھی سانسوں میں ہے
کون رکھے گا مرا ویسا خیال
اب تو بس ممکن یہ سب خوابوں میں ہے
سانس بھی لینا بہت دشوار ہے
ماں نہ ہو تو ہر خوشی بیکار ہے
میرے گلشن کی بہاریں کھو گئیں
جیسے سب خوشیاں خفا سی ہو گئیں
پھول سی نرمی لیے رہتی تھی وہ
اب نہ لوٹیں گی وہ گھڑیاں جو گئیں
روح میں چبھتا نوکیلا خار ہے
ماں نہ ہو تو ہر خوشی بیکار ہے
ماں سا پیارا نہ کسی کا پیار ہے
ماں نہ ہو تو ہر خوشی بیکار ہے
نوٹ: اپنی والدہ محترمہ جنھیں مرحومہ کہنے کا حوصلہ
نہیں پاتا ان کی برسی کے موقع پر یہ گیت لکھا ہے جو
اپنے سب دوستوں اور پڑھنے والوں کی نذر کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری سب ساتھیوں سے التماس ہے کہ وہ ان کی
مغفرت کے لیے خصوصی دعا فرمائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے والد محترم
کی مغفرت کے لیے بھی دعا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت شکریہ
ناچیز
زاہد
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






