ماں کے گزر جانے کا درد
Poet: عبدااسلام عارف By: Abdul Salam Arif, Mississauga Canadaاے ماں تجہے کیاکھو بیٹھے 
 ایک سارا جھان کھو بیٹے
 وہ محبت کہ جس کا ثانی نھیں
 وہ حرمت کہ جو فانی نھیں
 کیا یہ زندگی تیری نشانی نھیں
 
 ھم تو نظروں میں اندھرا لے کر
 سر پر سے آسمان کھو بیٹھے
 اے ماں تجھے کیا کھو بیٹھے
 ایک سارا جھان کھو بیٹھے
 
 تیرے وجود کا طلسم ایسے
 خود خدا کا ھو بھرم جیسے
 آج اٹھ گیا سایہ کرم جیسے
 
 اب کیا سفر اور کیا صعوبتیں
 ھم تو زندگی کا سروسامان کھو بیٹھے
 اے ماں تجھے کیا کھو بیٹھے
 ایک سارا جھان کھو بیٹھے
 
 وہ محبت کی بلائیں تیری
 وہ شفقت کی ادائیں تیری
 وہ بے لوث دعائیں تیری
 
 ھم تو صحرا کی جھلستی دھوپ میں
 چھت تو کیا مکان کھو بیٹھے
 ایے ماں تجھے کیا کھو بیٹھے
 
 وہ تیرا ساتھ تھا بھار کی مانند
 زندگی تھی سنگھار کی مانند
 رحمتوں کی اوتار کی مانند
 
 جن کی راھوں پر چلے تھے مدت
 انھیں راھوں کے نشان کھو بیٹھے
 اے مان تجھے کیا کھو بیٹھے
 ایک سارا جھان کھو بیٹھے
 
 وہ کھنکتی پیار بھری باتیں
 مسلسل ھدایتوں کی باتیں
 ہر لمھہ فکر و خیال کی باتیں
 
 ھم تو پنچھی کی طرح بے جا بے دم
 تیری طاقت کے بنا اپنی اڑان کھو بیٹھے
 
 وہ سمندر کی گھرائیوں سے بڑھ کر
 دریاوں کی طغیانیوں سے بڑھ کر
 خود میں سمائ وادیوں سے بڑھ کر
 کھکشاں کی وسعتوں سے بڑھ کر
 خدا کی خوشں نو دیوں سے بڑھ کر
 خود ماں کی اپنی بلندیوں سے بڑھ کر
 
 وہ تیرا پیار انمول خذانوں کی طرح
 وہ تیرا پیار انمول خزانوں کی طرح 
 وہ تیرا پیار انمول خزانوں کی طرح
 گلستان میں بکھری خوشبوں کی طرح
 بادلوں میں سمائی بارشوں کی طرح
 
 اب حدنظر عارف نا کوئی کنارہ ھے
 اک سفینہ تو رھا باقی بادبان کہو بیٹھے
 اے ماں تجھے کیا کھو بیٹھے
 ایک سارا جھان کھو بیٹھے






