سفر زیست میں، چلتے چلتے
جو لگے کہ راہ میں ہیں ہزار کانٹے
کہیں پہ پتھر، کہیں پہ دَلدَل
کہیں پہ دُور دُور تک بس صحرا
کہیں پہ چھائی ہوئی ہے ہر سُو دُھند
کہیں پہ ہے تِیرَگی اِس قدر
کہ ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہ دے
اور اُمید کا سِرا دکھائی نہ دے
تو سُنو! مایوس مت ہونا، یاد کرنا
وہ پتھر سے نکلتی ننھی کونپل
وہ سُرنگ کے آخر میں روشنی کا ہالہ
وہ غُروب مہر کے بعد
طُلوع سَحر کا نظارہ
وہ بعد از برگ ریزاں
کِھلتے پُھول، موسم بہاراں
یہ سب بھول جائے
تو بس اک آیت یاد کرنا
لا تقنطو من رحمۃ اللہ
اور اس پر ذرا دھیان دینا
یقین جانو
تمام تاریکی چھٹ جائے گی