مت پوچھو ماضی کا قصہ
ماضی بتانے کے لیے
ماضی کو جینا پڑتا ہے
ہر درد کو پھر سے
سہنا پڑتا ہے
جن لفظوں سے کاٹتا ہیں دل
ُانہی لفظوں کو
دہرانا پڑتا ہے
کسی کی اچھایوں کو اور پھر
ُبرایوں کو بتانا پڑتا ہے
آج کی خوشی کو بھول کر
ماضی کی تلخ یادوں پر
دو چار اشکوں کو بہانا پڑتا ہے
اپنے لہجے میں پرانے درد کی
حرارت کو لانا پڑتا ہے
کچھ باتیں جو سب کو
بتائی نہیں جاتی
ہاں پھر ُانہی چھپی باتوں کو
سب کو بتانا پڑتا ہے
بھولی ہوئی یادوں کو
یاد کر کے دل کو
پھر سے بھلانے کے لیے
سمجھانا پڑتا ہے
مت پوچھو ماضی کا قصہ
ماضی بتانے کے لیے
ماضی کو جینا پڑتا ہے