متـاعِ شـــامِ سفر بستیوں میں چھوڑ آئـے
بجھے چراغ ہم اپنے گھروں میں چھوڑ آئے
بچھڑ کے تجھ سے چلے ہم تو اب کے یوں بھی ہوا
کہ تیری یــاد ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں راستوں میں چھوڑ آئــــے
گھرے ہیں لشکر اعدا میں اور سوچتے ہیں
ہم اپنـــے تیر تو اپنی صفوں میں چھوڑ آئــے
ہمارے بعد بھی رونق رہے گی مقتل میں
ہم اہلِ دل کو بڑے حوصلوں میں چھوڑ آئے
سدا سکھی رہیں چہرے وہ ۔ ۔ ۔ ہم جنہیں محسن
بجھے گھروں کی کھلی کھڑکیوں میں چھوڑ آئے