مثالِ بدر جو حاصل ہوا کمال مجھے
گھٹا گھٹا کے فلک نے کیا ہلال مجھے
برنگِ سبزئہِ بیگانہ باغِ دہر میں تھا
تیرے سحابِ کرم نے کیا نہال مجھے
یہ الفتیں بھی ہیں دنیا میں یادگار اے مرگ
میرا خیال تجھے اور تیرا خیال مجھے
کبھی خوشی سے جو دنیا میں ایک پل گزرا
وہ صدمہ کش ہوں کہ برسوں رہا ملال مجھے
کسی کے سامنے کیوں جا کہ ہاتھ پھیلاؤں
میرا کریم تو دیتا ہے بے سوال مجھے