وفا کی ایک قید سے بھاگی ہوئی مجبور قیدی ہوں
اگر دل کی عدالت میں تمہیں میرا خیال آئے تو
مجھ کو یاد کے دھندلے کٹہرے میں طلب کرنا
میرے لفظوں میری باتوں کو دل ہی دل میں دھرانا
تو شاید پھر تمہیں کوئی پرانا نقش مل جائے
جو میری بے گناہی کی عدالت میں گواہی دے
یہی میری تمنا ہے کہ تم مجھ کو وہی سمجھو
جو میں نے تم کو سمجھا ہے
تمہیں اب تک سمجھتی ہوں میرے دیرینہ ساتھی ہو
تمہیں تو یہ خبر ہو گی کہ میں اپنی صفائی میں
کبھی بھی کچھ نہیں کہتی
اگر دل پھر بھی کسی پہلو سے میں مجرم نظر آؤں
تو وفا کی راہ میں نادان سمجھ کر درگزر کرنا