مجھے دکھتا نہیں آدمی ,کوئی انسان نہیں دکھتا
معاشرے میں انصاف کا کوئی پیماں نہیں دکھتا
عجب سحل تاری ہے سلطنت کے شرفاء کا
غریب کو کلمہ کفر کہتا بے -ایماں نہیں دکھتا
کل کس نے دیکھا ہے ,جو دکھتا ہے آج، نہیں دکھتا
منتظر ہے قبولیت کو دعا، اٹھتا کہیں ہاتھ نہیں دکھتا
خداوند کی مشیت ہے ویسے تو
،میرے ذمہ کا کام مگر نہیں دکھتا
کیسے بدلیں گے ہم خود کو اب
ہاتھ میں دکھتا ہے قرآن , عمل نہیں دکھتا