ویران اندر سے کر رہا ہے کوئی
مجھ سا مجھ میں اتر رہا ہے کوئی
وقت سا تحلیل ہوا چاہتا ہے
خاموش جان سے گزر رہا ہے کوئی
ساتھ چلنے کا وعدہ تو کر لیا تھا
سفرطویل دیکھ کر مکر رہا ہے کوئی
کڑی دھوپ میں بھی تپش نہیں
ہاتھ اٹھائے دعا کر رہا ہے کوئی
دل کے سرتال بگڑے ہوئے ہیں
مجھ سے جیسے بچھڑرہا ہے کوئی
گرد ہی گردہے اور ہم راہی
ہرطرف جیسے بکھر رہا ہے کوئی