آج تنہائی کے لمحات کہاں
مجھ سے اب میری ملاقات کہاں
فکر فردا میں مبتلا ہو کر
چین کا دن سکوں کی رات کہاں
زندگی میں کئی مسائل ہیں
وہ ترے خواب و خیالا ت کہاں
دل میں الفت کے ساز ٹوٹ گئے
لب پہ پہلے سے وہ نغمات کہاں
چمپئی دن ہیں سرمئی راتیں
پر مچلتے ہوئے جزبات کہاں
اک تغیر ہے ہر گھڑی رقصاں
زندگی میں ہمیں ثبات کہاں
میں کہ ذرہ حقیر سا زاہد
اور ساری یہ کائنات کہاں