مجھ سے ملنے آۓ وہ سہیلیوں کو چھوڑ کر
بات بھی کرے کبھی پہیلیوں کو چھوڑ کر
دربدر جو پھر رہا ہوں کیا ملا آوارگی میں
اپنے گھر , مکان اور حویلیوں کو چھوڑ کر
قید کر کے ان پہ کوئ ظلم تو کیا نہ تھا
کس لیۓ رنجیدہ ہو تم تتلیوں کو چھوڑ کر
سوچتا ہوں صحبتیں نئ بنانی ہی نا تھیں
اپنے سب پرانے یار ? بیلیوں کو چھوڑ کر
قبر نے نجات ہی دلا دی سب گناہوں سے
ٹھیک ہوں میں اب گناہ کی ریلیوں کو چھوڑ کر
باقر جتنے پھول بھی کھلے ہیں غنچہء دل میں
سارے توڑ لو مگر چمبیلیوں کو چھوڑ کر