قید تنہائی میں ہجر کے وہ لمحے
عمر رواں کی دھیمی آنچ پر
اس سفر میں معتبر ٹہرے
وہ ستمگر جس سے میرا ناطہ ھے
اور اس وسیع رشتے کے
بے کراں سمندر میں
میرے جذبوں کے سبھی ساتھی
پھر یونہی بے اثر ٹہرے
اور وہ دربدر ھوتے ھوئے
گلیوں کی خاک میں ڈوبے
شہر شہر میں تلاش کرتے
وہ زخمی سب موسم
میرے آنگن میں رات بھر ٹہرے
اور وہ بدلتی رتوں میں
جلتی دھوپ کے صحرا میں
پیاسے ھونٹوں پہ ان گنت
رکے سرابوں میں
وہ وصل کے سارے لمحے
مجھ سے ہی بے خبر ٹہرے