مجھ پہ کیا بیتی ہے یہ اُسکو بتاؤں کیسے
آتشِ سوزاں میں اوروں کو جلاؤں کیسے
اسکو یہ سوچ کے خفا رہنے دیا میں نے
جو روٹھ کے خوش رہتا ہو اسے مناؤں کیسے
ڈالی سے جدا کر کے بالوں میں سجا لیا اسنے
اب خوشبو کو ہواؤں میں اڑاؤں کیسے
بارہا سوچا میں نے اب کے نہ یاد کرونگا
پھر یہ سوچتا ہوں اُس کو بُھلاؤں کیسے
اس شوقِ جنون نے کہیں کا نہیں چھوڑا
دل توڑنے والوں سے اب ہاتھ ملاؤں کیسے
جاتے ہوئے اُس نے یہ حق بھی چھین لیا ہے
پہلے کبھی رو لیتا تھا اب اشک بہاؤں کیسے
آئے کبھی زخموںپہ رضا دستِ شفا رکھے
ہجر کی کالی راتوں کو تنہامیں بِتاؤں کیسے