اب کے اِس طور سے آنچل کی ہوا دے مجھ کو
جاگتے ذہن کی میراث بنا دے مجھ کو
جو میرے درد کی آواز سمجھ سکتا ہو
اے زمانے کوئی ایسا بھی خدا دے مجھ کو
میں نے سمجھا ہے تجھے منصفِ دوراں اکثر
میری ناکردہ گناہی کی سزا دے مجھ کو
میں تیری راہ میں اِک سنگ سُبک وزن تو ہوں
دیر کیا لگتی ہے ٹھوکر سے ہٹا دے مجھ کو
کب تلک میرے تصور میں پھرے گا چُپ چاپ
تجھ سے ممکن ہو تو کچھ دیر بھلا دے مجھ کو
یہ الگ بات کہ اوجھل ہوں نظر سے ورنہ
میں تیرے پاس ہی رہتا ہوں صدا دے مجھ کو
میں دھڑکتا ہوں تیرے سینے میں دل کی صورت
اے میرے دشمنِ جاں اور دُعا دے مجھ کو
اُف شبِ غم کا وہ ٹھہرا ہوا لمحہ محسن
جب میرے وہم کی آہٹ بھی جگا دے مجھ کو