مجھ کو تعلیم سے نفرت ہی سہی
اور کھیلوں سے محبت ہی سہی
میں نے اس سے تو بڑے کام لیے
آپ کو کھیل سے وحشت ہی سہی
امتحاں سے میں نہیں گھبراتا
فیل ہونا مری قسمت ہی سہی
پڑھنے والوں نے بھی کیا کچھ نہ کیا
نقل کرنا مری عادت ہی سہی
میں نے تو صرف گزارش کی تھی
سب کی نظروں میں شکایت ہی سہی
میں کسی سے نہ لڑوں گا ہرگز
دب کے رہنا مری فطرت ہی سہی
میں نہ چھوڑوں گا شرافت کا چلن
یہ شرافت مری ذلت ہی سہی
کبھی چومے گی قدم خود منزل
آج ہر گام پہ دقت ہی سہی
یہ مصیبت بھی بڑی دل کش ہے
زندگی ایک مصیبت ہی سہی
کیفؔ اک دن یہ بنا دے گی تجھے
شعر گوئی تری عادت ہی سہی