مانگی خوشی تو رنج کا سامان کر دیا
مجھ کو مرے ہی درد کا میدان کر دیا
پائی ہے اک گناہ کی سب سے بڑی سزا
اس کی نظر کے مجھ سے جو پیمان کر دیا
زنبیل ہاتھ میں ہے تو مجھ کو خلوص دو
سمجھوں گی مجھ کو اپنوں نے انجان کر دیا
کچھ بھی نہ مل سکا یہاں تشنہ حیات میں
صد شکر پھر بھی درد کا پیمان کر دیا
دیکھے جو میں نے سانپ یہاں آستین کے
دل بھی مرے وجود سے اعلان کر دیا
اس کو گمان ہے یہاں اپنے غرور پر
مجھ کو غمِ حیات کے ویران کر دیا
ایسا نہ ہو کہ پھر یہ سمندر میں جا گرے
دریا کو میں نےآنکھ میں پیمان کر دیا
یہ زندگی اٹھا کے اڑوں آسمان تک
ہمت کی داستان کادیوان کر دیا
وشمہ یہ وصل یار کے سب خواب چھوڑ کر
دل کی زمیں پہ ہجر کا مہمان کر دیا