محفل میں آج شمع کو پروانےمل گئے
مجھ کو مرے ہی درد کے دیوانے مل گئے
میں لکھ رہی ہوں خون سے دل کی کتاب کو
تم کیا ملے ہو پیار کے افسانے مل گئے
تجھ کو بھلا کہ کر لو گی میں خود سے انتقام
ساقی سے مجھ کو جب کبھی پیمانے مل گئے
زنبیل ہاتھ میں ہے تو مجھ کو خلوص دو
سمجھوں گی مجھ کو اپنے و بیگانے مل گئے
پائی ہے اک گناہ کی سب سے بڑی سزا
مجھ کو غمِ حیات کے ویرانے مل گئے
خوشیوں کی اک جھلک ہی دکھانے سے پیشتر
مجھ کو مرے نصیب کے د وا نے مل گئے
کانٹوں کی رہگزر میں بڑھے گا گلوں سے پیار
وشمہ چلیں جو بزم میں مے خانے مل گئے