دل شمع وصال جیسا بجھ سا رہا ہے
ذہن تیری یادوں میں الجھ سا رہا ہے
تیری قربت میں کبھی احساس ہی نا ہوا
کہ مجھ میں بھی کبھی کوئی مجھ سا رہا ہے
وقت رفتہ نے یہ بھی بھلا دیا کہ سنگ میرے
وقت گزشتہ میں کوئی تجھ سا رہا ہے
یہ بے جان جسم، کسی بستی میں گم ہوگیا
دل دو نیم بھی رنگ دنیا سمجھ سا رہا ہے
آج دیکھ کے تجھے اک امیر ذادے کیساتھ
تیری بیوفائی کا معمہ سلجھ سا رہا ہے
یہ کیسی رت آئی ہے پھر پیار کی اے لوگوں
کہ معظم پھر کسی کے لیے سج دھج سا رہا ہے