مجھے بھی خبر ہے میں کیا ہو گیا ہوں
میں سب کی نظر میں برا ہو گیا ہوں
مجھے میری باتیں بھی چبھنے لگی ہیں
میں اب کس قَدَر چڑچڑا ہو گیا ہوں
مرے لفظ چبھتے ہیں نشتر کی مانند
کہ میں اب بہت کھردرا ہو گیا ہوں
مجھے لوگ ملنے سے ڈرتے ہیں ایسے
کہ میں کوئی جیسے وبا ہو گیا ہوں
مجھے اب کسی سے نہیں خوف کوئی
کہ میں اب سبھی سے جدا ہو گیا ہوں
بظاہر تو با حوصلہ جی رہا ہوں
میں اندر سے چاہے فنا ہو گیا ہوں
نئے جال میرے عدو بُن رہے ہیں
کہ میں قید سے پھر رہا ہو گیا ہوں
میں خود جان جوکھم میں ڈالے ہوں پھرتا
کہ میں اب بہت سر پھرا ہو گیا ہوں
مجھے دوڑتا پھر سے دیکھیں گے حاسد
کہ میں گر کے پھر سے کھڑا ہو گیا ہوں