مجھے تم چپ ہی رہنے دو
یہ تیرے حق میں بہتر ہے
میرا ہر بول خنجر ہے
میرا ہر لفظ نشتر ہے
میرے لہجے کی تلخی سے
تم بچ نکلو تو بہتر ہے
اب ! کہ اتنازہر ہے مجھ میں
میں دنیا پھونک دوں ساری
تیرے ہجر نے جاناں
مجھے سوغات بخشی ہے
اُجلے روشن دن کے بدلے
زہریلی رات بخشی ہے
عبرتِ نگاہ بخشی
ہستیءِ فنا بخشی
چھین کر خوش خلقی
اور سلیقہءِ زندگی
بدمزاجی سونپ دی
اب کہ...!
اِس بدمزاجی سے
اُس شگفتہ مزاجی تک
صد ہزار سالوں کا
فاصلہ ہے آسیبوں کا
عمر کٹ تو سکتی ہے
فاصلہ نہیں کٹتا
تم ہوکہ مل نہیں سکتے
مزاج کہ بدل نہیں سکتا
مجھے تم چپ ہی رہنے دو