وقت کی گردش ایام میں بہہ جانے دو
زندگی جیسے گزرتی ہے گزر جانے دو
میرے دل نے کبھی پھولوں کی تمنا کی تھی
آج کانٹوں ہی کو دامن سے لپٹ جانے دو
روشنی جگ میں ہے اور دل میں اندھیرا میرے
ان اندھیروں سے بہت دور نکل جانے دو
دوستوں نے پوچھا کہاں ہیں اسکے قسم وعدے
میں نے کہا چھوڑو اسے نئی دنیا بسانے دو
وہ چاند تھا چاند ہے اسے چمکنے دو فلک پہ فراز
میں خاک تھا خاک ہوں مجھے خاک میں مل جانے دو