مجھے شام و سحر آہوں سے چھٹکارا نہیں ملتا
امیدو یاس کی راہوں سے چھٹکارا نہیں ملتا
ہزار بار چھوڑا ہے بے بسی کا دامن میں نے
کیا کروں محبت سے مجھے چھٹکارا نہیں ملتا
نہ جانے کیوں دشوار لکتی ہے زندگی اتنی
شب بھر اُس کے خوابوں سے چھٹکارا نہیں ملتا
اُس شخصِ باکمال کی آغوش بھی نصیب نہیں مجھے
دن بھر اشک بہانے سے چھٹکارا نہیں ملتا
وصف کوئی تو ایسا ہے اُس شخص میں مبارک
خیالوں میں بھی اُس کی پوجا سے چھٹکارا نہیں ملتا