مجھے کسی سے پیار تھا میں سب بُھول چکا ہوں
ایک شخص میرا پیار تھا میں سب بُھول چکا ہوں
وہ ہجر کی راتوں کے سلگتے ہوئے لمحے
آنکھوں پر کوئی یار تھا میں سب بُھول چکا ہوں
ہاں میری ہی خطا تھی کہ تجھے ٹوٹ کر چاہا
ہاں میں ہی گناہ گار تھا میں سب بُھول چکا ہوں
بخشی ہے مجھے پیار کے بدلے میں جُدائی
جو میرا کردار تھا میں سب بُھول چکا ہوں
آنکھیں شبِ فرقت میں رہا کرتیں تھیں پُرنم
میں تیرا ہی طلبگار تھا میں سب بُھول چکا ہوں
بس اتنا مجھے یاد ہے کہ وصل کی ایک شب
اقرار تھا انکار تھا میں سب بُھول چکا ہوں
ایک شخص نے پاگل بنا رکھا تھا مجھے بھی مسعود
میں بھی کتنا سمجھدار تھا میں سب بُھول چکا ہوں