مجھے کچھ اور کرنا ہے
Poet: محمد سجاد انجم By: محمد سجاد انجم, karachiمجھے کچھ اور کرنا ہے
میری تخلیق احسن ہے
میرا رتبہ بھی اشرف ہے
اور اس کا یہ تقاضا ہے
کہ
میرا کردار اعلیٰ ہو
میرے افکار بالا ہوں
میری سوچیں نرالی ہوں
میرے اوصاف عالی ہوں
کیوں؟ کہ میں وہ ہوں
جسے رب نے وہ عظمت دی
کہ سارے بحر وبر
حجر شجر
سب خشک وتر
میرے لئے پیدا کیئے اس نے
مجھے اپنی نیابت سے نوازا
اور
ہزاروں طاقتیں اور قوتیں ایسی ودیعت کیں
کہ میں گر جبل سے کہہ دوں
کہ اپنی جا سے ہٹ جائے
تو میرے رب کی منشاء سے
میری عظمت کے آگے سرنگوں ہو کر
وہ اپنی جا سے ہٹ جائے
مگر میں نے
نہ اپنی ذات کو جانا
نہ اپنے رب کو پہچانا
اور جت گیا دنیا کی خدمت میں
کہ جس کو میری خدمت کیلئے
پیدا کیا رب نے
مگر اب
جبکہ رب نے سوچ کی توفیق بخشی ہے
اور پھر اس سوچ کو راہ ہدایت پر چلایا ہے
تو میں یہ بات سمجھا ہوں
کہ میری تخلیق کا مقصد
عبادت کے ذریعے معرفت کی راہ پانا ہے
تجارت اور زراعت تو فقط ہیں کھیل دنیا کے
مجھے دنیا سے اور دنیا کے ہر شر سے
مشیت ایزدی کے ساتھ بچنا ہے
میری کچھ اور منزل ہے
اور اس منزل کو پانے کیلئے
حد سے گزرنا ہے
مجھے کچھ اور کرنا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






