بُھولی ہوئی صدا ہُوں مجھے یاد کیجئے
تم سے کہیں ملا ہُوں مجھے یاد کیجئے
منزل نہیں ہُوں ، خِضر نہیں ، رہزن نہیں
منزل کا راستہ ہُوں مجھے یاد کیجئے
میری نگاہِ شوق سے ہر گُل ہے دیوتا
میں عشق کا خُدا ہُوں مجھے یاد کیجئے
نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے
اشکوں کی انتہا ہُوں مجھے یاد کیجئے
گُم صُم کھڑی ہیں دونوں جہاں کی حقیقتیں
مَیں اُن سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجئے
ساغر کسی کے حُسنِ تغافل شعار کی
بہکی ہوئی ادا ہُوں مجھے یاد کیجئے