محبت روگ ہے جاناں محبت اب نہیں ہوگی
محبت اک تماشہ ہے شکایت اب نہیں ہوگی
عمر ساری پوجا تھا حسن کے ان خداؤں کو
محبت گر عقیدت ہے عقیدت اب نہیں ہوگی
فسانے بہت ہیں بکتے پرانے کئی زمانے سے
محبت اک روایت ہے تو روایت اب نہیں ہوگی
چُنا تھا حسن دیواروں میں یہ کہہ کر بھی اکبر نے
محبت گر بغاوت ہے بغاوت اب نہیں ہوگی
ٹوٹے جب تیر مرزے کے، پکارا وہ بھی یہ آخر
محبت گر رفاقت یہ رفاقت اب نہیں ہوگی
لکھا اک لفظ محبت تھا مجنوں نے مٹا ڈالا
محبت گر عنایت ہے عنایت اب نہیں ہوگی
اُٹھا کرپحول کی پتی نزاکت سے مثل ڈالی
محبت گر نزاکت ہے نزاکت اب نہیں ہوگی
جلا ساجد جو پروانہ پکارا اس نے یہ آخر
محبت گر عبادت ہے عبادت اب نہیں ہوگی