محبت اب کہ ایسی ہے کہ ھو اک بد نما سا پھول
کہ جس کی تلخ خشبو سے
دل میں چھید ہو جایئں
حقیقت ساری کھل جائے
عیاں سب بھید ھو جایئں
خمار آنکھوں سے یوں اترے
ھو جائے ختم جیسے دھول
محبت اب کہ ایسی ہے کہ ھو اک بد نما سا پھول
میں ان کالی ذلفوں کو
راتوں سے ملاتا تھا
یہ مہر و ماہ کے سب رنگ
اس رنگ میں سماتا تھا
کھلی اب یہ حقیقت ہے
کہ ساری تھی فقط اک بھول
محبت اب کہ ایسی ہے کہ ھو اک بد نما سا پھول