ہواؤں کا اثر جاتا نہیں ہے
ابھی شوقِ سفر جاتا نہیں ہے
تیری ضد پر تعلق توڑتا ہوں
بچھڑ کر کوئی مر جاتا نہیں ہے
سبھی رستے میں اس کے منتظر ہیں
کوئی بھی شخص گھر جاتا نہیں ہے
مجھے تجھ سے نہیں ملنا ہے جب تک
یہ پہلا زخم بھر جاتا نہیں ہے
محبت دے ہی دیتی ہے جدائی
کو ئی بھی بے ثمر جاتا نہیں ہے
بھری رہتی ہیں اب اشکوں سے آنکھیں
یہ دریا کیوں اتر جاتا نہیں ہے