ہزاروں دکھ پڑیں سہنا محبت مر نہیں سکتی
ہے تم سے بس یہی کہنا محبت مر نہیں سکتی
ترا ہر بار میرے خط کو پڑھنا اور رو دینا
میرا ہر بار لکھ دینا محبت مر نہیں سکتی
کیا تھا کیمپس کی ندی پر اک حسیں وعدہ
بھلے ہم کو پڑے مرنا محبت مر نہیں سکتی
جہاں میں جب تلک پنچھی چہکتے اڑتے پھرتے ہیں
ہے جب تک پھول کا کھلنا محبت مر نہیں سکتی
پرانے عہد کو جب زندہ کرنے کا خیال آئے
مجھے بس اتنا لکھ دینا محبت مر نہیں سکتی
وہ تیرا ہجر کی شب فون رکھنے سے پہلے
بہت روتے ہوئے کہنا محبت مر نہیں سکتی
اگر ہم حسرتوں کی قبر میں ہی دفن ہو جائیں
تو یہ کتبوں پہ لکھ دینا محبت مر نہیں سکتی
ذرا اک بار تو کہنا محبت مر نہیں سکتی
گئے لمحات فرصت کے کہاں سے ڈھونڈ کر لاوں
وہ پہروں ہاتھ پر لکھنا محبت مر نہیں سکتی