محبت کم نہیں ہوتی تم بھی میرے نہیں ہوتے
یہ کیسے زخم ہیں جو کبھی بھرے نہیں ہوتے
احساس ء جدائی پہ تم بھی پگھل جاتے
چاہت مجھ سے ہوتی تو جذبے ٹھرے نہیں ہوتے
اک قیامت اٹھ جاتی حق جو غریب کا مرت
احساس بیدار جو ہوتے لوگ بہرے نہیں ہوتے
تم میرے ہوتے تو میرا ساتھ بھی دیتے
جو ساتھ دیتے تم ہم ہارے نہیں ہوتے
تم جیسے اگر ممکن حوصلے ہوتے ہمارے بھی
تم ہمارے نہیں ہوتے ہم تمہارے نہیں ہوتے
اکثر روح پہ لگتے ہیں جو گھاؤ اپنے دیتے ہیں
جو غیر دے جائیں وہ درد گہرے نہیں ہوتے
فرض محبت کے ادا تم بھی کچھ کرتے
ہمارے دامن میں سنو! اتنے خسارے نہیں ہوتے
قائل ضوابط کی محبت بھی کہیں ہوتی
محبت رسواء نہیں ہوتی بے وفا پیارے نہیں ہوتے
طوفان ء دوراں میں عنبر میں کہاں ہوتی؟
اسکی ذات کے مجھے گر سہارے نہیں ہوتے