وہ جسے اختتام محبت سمجھتے رہے
ابھی آغاز ہی تھا مگر سمجھ نہ پائے تھے
مدتوں کی رفاقت کے بعد وہ بے ربط الفاظ
ہمی جانتے ہیں دل سے زباں پہ کیسے لائے تھے
وہ جن سے سالوں تک کا تعلق رہا اپنا
آنکھ ایسی پھیری جیسے ہم پرائے تھے
چرچے ہیں شہروز، انکے بھیدوں کے زباں پہ سب کی
چھپانے کو جن کو سو جتن جتائے تھے