تیر ستم چلا کے جو ہنستے رہے یہاں
انکی صفوں میں گریہ و ماتم کا ہے سماں
تذلیل کر کے میری جو پاتے رہے سکوں
کرتے ہیں میرے غم میں وہ آہ و فغاں یہاں
میں تو کھلی کتاب کی صورت رہا مگر
تم نے ہی دل میں بغض کو رکھا مگر پنہاں
دل کے دریچے کھول کر ملتا رہا ہوں میں
اندر کا میرے حال تو سب پر رہا عیاں
پڑھ کر اسے ندامت احساس ہو کبھی
لکھی ہے خون دل سے محبت کی داستاں
شام الم سجی ہے لہو کے چراغ سے
لکھی گئی ہے غم کی حکایات خونچکاں
شعلے اگلنا پھر سے شروع کر نہ دے اشہر
ماضی میں اپنے یہ بھی تھا آتش فشاں یہاں