محبت کے سبھی پھول جاناں
آہستہ آہستہ کر کے مرجھا دیے
اپنے پورے ہوش و ہوس میں
تیرے تلخیوں بھرے خط ہم نے جلا دیے
کیسی گھٹا چھا گئی دل کی وادی پر
جس نے حسین سوچوں کے دیے بجھا دیے
بڑا مان تھا ُاسے اپنے ارادوں پر لکی
جس نے زمانے کا سہارا لے کر ہمارے ارمان مٹا دیے
رونقوں میں درد بھلانا اسان ہو گا تمہیں
تیری خاطر ہم نے تو اپنے دوست بھی گنوا دیے
میرا غم تو میرا اپنا ہی نکلا لکی
پھر کیوں اپنی خوشی کی پل تجھ پے لٹا دیے
اب تک نہیں سمجھی وقت نے کیسی کڑوٹ لی
کہ جیت کے سکھ غموں میں ڈھال دیے
قلم کی نوک پے آ پہنچا تھا انتطار تیرا
توڑ کے قلم قاضی نے سزایئں موت کے فیصلے سنا دیے