محبتوں میں کبھی یہ اثر نظر آئے
وہ ایک بار دکھے عمر بھر نظر آئے
جو سر جھکاؤں تو پیروں میں بیڑیاں دیکھوں
جو سر اٹھاؤں تو نیزے پہ سر نظر آئے
سکون ڈھونڈتے تھک جاؤں اور آخر کار
وہ تنگ گلیوں میں مٹی کا گھر نظر آئے
نہ منزلوں کا پتا ہے نہ راستوں کی خبر
بھٹکتی آنکھوں کو اب راہ بر نظر آئے
یہی تو نوحہ ہے فرقت زدہ ان آنکھوں کا
پیام یار ملے نامہ بر نظر آئے
تبھی تو مانوں کہ ہاں اس کو بھی محبت ہے
جب اس کی آنکھوں میں فرقت کا ڈر نظر آئے
مجھ ایسا بزم میں کوئی تو سر بہ زانو ہو
ان ہنستے چہروں میں اک چشم تر نظر آئے