محبتوں میں ہر اک لمحہ وصال ہوگا یہ طے ہوا تھا
بچھڑنے کے بعد بھی اک دوسرے کا خیال ہوگا یہ طے ہوا تھا
وہی ہوا نا بدلتے موسم میں تو نے مجھ کو بھلا دیا ہے
کوئی بھی رت ہو نہ چاہتوں کو زوال ہوگا یہ طے ہوا تھا
یہ کیا کہ سانسیں اکھڑ گئی سفر کے آغاز ہی سے یارو
کوئی بھی نہ راستے میں نڈھال ہوگا یہ طے ہوا تھا
جدا ہوئے ہیں تو کیا ہوا پھر یہی تو دستور زندگی ہے
جدائیوں میں نہ قربتوں کا ملال ہوگا یہ طے ہوا تھا
چلو کہ فیضان کشتیوں کو جلا دیں گمنام ساحلوں پر
کہ اب یہاں سے نہ واپسی کا سوال ہوگا یہ طے ہوا تھا