محبّت کے کچھ اسے تعویز ہیں میرے پاس
جو مجھ کو کسی اور کا ہونے نہیں دیتے
ہر شب تیری یادوں کا اچانک سے آنا
تیری یاد کے جگنو مجھے سونے نہیں دیتے
اے ماضی میرے حال پہ کچھ تو رحم کر
گزرے ہوئے لمحے مجھے جینے نہیں دیتے
کب تک میں اٹھاؤں محبّت کا جنازہ
جس کو میرے اپنے بھی کندھا نہیں دیتے