محرمِ راز غمِ دل پہ نظر ہو نہ سکی
جوششِ بحر کی ساحل کو خبر ہو نہ سکی
دل کا ہر داغ تو خورشید صفت ہے لیکن
پھر بھی اے دوست شبِ غم کی سحر ہو نہ سکی
کون ہے جس نے مرے حال پہ ماتم نہ کیا
مجھ پہ اک تم سے عنایت کی نظر ہو نہ سکی
یوں بھی آئے ہو مری خلوتِ خاموش میں تم
اپنے آنے کی تمھیں خود بھی خبر ہو نہ سکی
لبِ خاموش سے اک آہ نکل آئی تھی
وہ بھی شرمندئہ تاثیر مگر ہو نہ سکی
ایک نکلی تو ہزاروں نے جگہ لی اخترؔ
کبھی تکمیل تمنّائے بشر ہو نہ سکی