پاس غم ہم نے بھی کتنا رکھا
بند آنکھوں ہی میں دریا رکھا
دل نے ہر زخم کے آئینے میں
اک نہ اک پھول سا چہرا رکھا
محفلیں ہو گئیں ویران لیکن
مجھ کو تنہائی نے زندہ رکھا
شب ہجراں کی سحر ہونے تک
ہم نے ہر سانس کو جلتا رکھا
ظرف اظہار وفا نے مجھ میں
کچھ نہ کہنے کا سلیقہ رکھا
ہم نے صحرا کی روانی کا خیال
اپنے گھر سے بھی زیادہ رکھا
کچھ سرابوں سے نہیں ہے شکوہ
ہم کو دریاؤں نے پیاسا رکھا
انکے آنے کے اک اندیشے نے
عمر بھر دل کو دھڑکتا رکھا
ہے وہی میری تمنا شاعر
جس نے محروم تمنا رکھا